ناموسِ رسالت اور ہم
تحریر:کاشف بٹ
mkbutt2000@gmail.com
اُمتِ مسلمہ کے لیے تمام انبیاء واجبِ الاحترام ہیں اور ختمِ نبوت ایمان کا بنیادی ستون ہے اسی لیے ایسے افعال پہ امت شدید کرب سے گزر رہی ہے، مسلمان اپنی ذات پہ ہونے والے حملے تو برداشت کر سکتا ہے لیکن اللہ عزوجل کے برگزیدہ پیغمبروں اور اُن کے صحابہ کی شان میں گستاخی کبھی برداشت نہیں کرے گا اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی بناء پہ شیطان اور اُس کے انتشار پسند چیلے مسلمانوں کو ذہنی کرب دے رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچانے والے افعال کیا ہے۔
آج امتِ مسلمہ سراپۂِ احتجاج ہے، قریہ قریہ احتجاجی جلوس نکل رہے ہیں بائیکات بائیکات کے نعرے لگ رہے ہیں گھروں میں پڑی مغربی مصنوعات کو تلف کیا جا رہا ہے مگر کیا حاصل۔۔۔؟ اُمتِ مسلمہ آج نڈر قیادت سے محروم ہے، اتحادِ مسلمین کا وجود پاش پاش ہو چکا ہے، وہ قوت کھو چکی ہے جس کے تحت دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے دیکھا جا سکے کیونکہ ہم دوست اور دشمن کی تمیز سے ہی محروم ہیں، دین مذہب کی شکل اختیار کر چکا ہے اور مذہبی عالم عوام کو گمراہیوں کی جانب لے جا رہے ہیں ایسے علماء انتشار پسند عناصر کے بارے میں جو فتوے جاری کرتے ہیں اُن کی اہمیت بھی اتنی ہی رہ گئی ہے جو کسی دوسرے مسلک کے خلاف جاری کردہ فتوے کی ہے کیونکہ کہنے اور عمل کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اُمتِ مسلمہ کے افراد اِن علماء کے خطابات کی روشنی میں اسلام کو سمجھتے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اسلام کی روشنی میں ان کے خطابات کو پرکھا جائے لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اپنے پیشے کی بقا کے لیے اِن مذہبی علماء نے ایک طویل عرصہ کھیل رچایا ہے جو اب عوام کو حقیقت محسوس ہونے لگا ہے، بازار میں فتووں کی ضحیم کتابیں موجود ہیں جن میں ایسے فتووں کی کوئی کمی نہیں جو باہم متصادم تو ہے ہی لیکن اسلام سے بھی متصادم ہیں، اِن مذہبی علماء نے اسلام کو مسلک کے نام پر اتنے مذاہب میں تقسیم کر دیا ہے جس کی مثال پہلی امتوں میں بھی نہیں ملتی، اِن مذاہب کی بنیادات میں جھانکا جائے تو معلوم ہو گا کہ نفرتوں کا سفر کہاں سے شروع ہوا اور کیسے آگے بڑھا اور بڑھتا جا رہا ہے مگر ملتِ اسلامیہ کے افراد اِس جانب توجہ نہیں دیتے اُن کے لیے تو دینِ اسلام اُسی مذہب تک محدود ہو گیا ہے جس کی تعلیم اُن نے اُس شخص یا مدرسے سے حاصل کی ہے جس کی جانب والدین نے انہیں حروفِ تہجی کا قاعدہ دے کر بھیجا ہے کیونکہ والدین نے اپنے بچپن میں بھی یہی فعل سرانجام دیا تھا، موروثیت نے فکری قوتوں کے استعمال کو بہت پائمال کیا ہے لیکن۔۔۔
ایسے عالم میں بھلا ہم کیسے شیطان صفت انتشار پسند عناصر سے مقابلہ کر سکیں گے؟ کیسے انہیں اُن کے گھناؤنے افعال سے روک پائیں گے؟ جناب! اپنی تصیح ضروری ہے جب پانی سر سے گزرنے لگے پھر ہاتھ پاؤں مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، ایک محفل میں پیر صاحب خطاب کر رہے تھے پہلے اُن نے وطنِ عزیز کے علماء و شیوخ میں اپنے مقام اور منصب کی تفصیلات بیان کیں اور پھر رات کو امریکہ میں دیئے گئے اپنے آن لائن انٹرویو کا ذکر کرنے لگے جس میں اُن نے مقابل سے ناموسِ رسالت پہ سیر حاصل گفتگو کی تھی اور اپنے جذبۂِ ایمانی سے آگاہ کیا تھا، ساری روداد بیان کرنے کے بعد اُن صاحب نے حاضرینِ محفل سے تحفظِ ناموسِ رسالت ریلی میں شرکت کی بھرپور اپیل کی جس کا حاضرین نے بھی جوش و جذبہ سے خیر مقدم کیا، میں قریب بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اِن پیر صاحب کے قول و فعل میں بھی کتنا تضاد ہے، یہ صاحب شاذ ہی وطنِ عزیز میں دستیاب ہوتے ہیں، بیرونِ ملک قیام پذیر مریدوں کو ان سے اتنا اُنس ہے کہ انہیں زیادہ تر اپنے پاس ہی رکھتے ہیں اور اُن کے جذبۂِ ایمانی کی حالت ایسی ہے کہ صحابہ کی شان میں گستاخی پر انہیں کئی بار ہزیمت بھی اٹھانا پڑی ہے مگر آج بھی اپنے مریدوں کے درمیان اونچے منبر پہ بیٹھے خطاب کرتے ہیں۔۔۔ یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے گا اور پیر صاحب کی وفات کے بعد اُن کا مزار بنایا جائے گا اور اُن کے نام کے ساتھ رحمت اللہ علیہ لکھا جائے گا۔۔۔ افسوس یہ گستاخ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی سامنے نہیں ہیں۔۔۔
ہمارے حکمرانوں کے بیانات بھی آن ریکارڈ ہیں کسی نے قرآن پاک کے چالیس پارے گنوائے اور کسی نے حج کے رکن کو میراتھن ریس کے ساتھ نتھی کیا لیکن آج بھی جذبۂِ ایمانی کے ساتھ زندہ سلامت ہیں، رقص کی محفلیں سجانے والے اور جام بھر بھر پینے والے بھی ایوان میں بیٹھے ہوئے ہیں کیا اُن کے افعال توہینِ رسالت کے زمرے میں نہیں آتے، قرآنی احکام کی نفی کرتے یہ افعال قابلِ گرفت نہیں تو کیا ہیں؟ اور جب حکمرانوں کی حالت ہی ناگفتہ بہ ہو تو اُن سے کیسی توقع۔۔۔؟؟
عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے احکامات خوش آئند ہیں جن کے تحت توہینِ رسالت والی ویب سائٹس کے لنک کی روک تھام اور کچھ سرچ انجن کی مانیٹرنگ کی ہدایت کی گئی ہے مگر کیا اتنا ہی کافی ہے۔۔۔؟ معاشرے کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے کہ اُن تمام ویب سائٹس پر بھی پابندی لگا دی جائے جو شرمناک اور فتنہ انگیز مواد کے ابلاغ میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی، معاشرے میں اخلاقی اقدار کے احیاء کے لیے لٹریچر، تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے بے حیائی پھیلانے والی ویب سائٹس کے لنکس پہ بندش ناگزیر ہے ورنہ نوجوان نسل کی اخلاق اور کردار کا تحفظ ممکن نہیں۔ مذہبی و سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی ویب سائٹس کی مانیٹرنگ بھی ناگزیر ہے اِس سے معاشرے میں تفرقہ سازی اور فتنہ پھیلانے کی کوششوں میں کافی حد تک کمی ہو گی۔ افسوس ہم لوگ اپنے معاملات میں دینِ کامل دور ہوتے جا رہے ہیں اللہ عزوجل نے نبی پاک ﷺ کے ذریعے جو تعلیمات ہم تک پہنچائی ہیں ہم اُن سے قطع نظر مادیت پرستی میں الجھ چکے ہیں ہم صلوٰۃ تو ادا کرتے ہیں لیکن صلوٰۃ کی روح سے مستفید نہیں ہو پاتے اور ہوں بھی کیسے جبکہ ہم ایک صلوٰۃ میں اللہ عزوجل سے جو عہد کرتے ہیں مسجد سے نکلتے ہی اُس کی پاسداری بھول جاتے ہیں اور دوسری صلوٰۃ میں پھر وہی عہد دہراتے ہیں اور مسجد سے نکل کے پھر وہی اپنی منشا اور اپنی خواہشات۔۔۔ یہ سب کس زمرے میں آتا ہے۔۔۔؟ جناب! گناہ اور ثواب کے اعداد و شمار سے نکل کے سوچیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ سب بھی توہینِ رسالت کے زمرے میں آتا ہے اور اِس کے فاعل ہم خود ہیں۔۔۔
اِس سے زیادہ بے بسی کا مقام کیا ہو گا کہ آج شیطان صفت انتشار پسند عناصر اپنے مذموم مقاصد میں سرگرمِ عمل ہیں اور ہم بجز احتجاج کے کچھ بھی عملی قدم اٹھانے سے محروم ہیں۔۔۔ وجہ صاف ظاہر ہے ہمیں اپنے اندر جھانکنا ہو گا اپنے تزکیۂِ نفس پہ توجہ دینی ہو گی منافقت سے اجتناب برتنا ہو گا تب ہی ہم ایمان کی اصل روح سے آشنا ہوں گے اور ہمارے اندر وہ قوت ابھرے گی جو ہمیں ایسے شیطان صفت عناصر کے قبلے درست کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔ اللہ عزوجل ہم سب کے حال پہ رحم فرمائے (آمین)۔ انتشار پسند طبقے نے آزادئِ اظہارِ رائے کے نام پہ جس طرح اسلام اور حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کی جرأت کی ہے وہ کسی طور ماورائے گرفت نہیں، ہر انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے اور اُسے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی فکری قوتوں کو زیرِ استعمال لاتے ہوئے اپنے لیے بہتری کی راہ اختیار کرے، انہی فکری قوتوں کی رہنمائی کے لیے اللہ عزوجل نے اپنے پیغمبروں کو وحی کے ساتھ بھیجا جن نے انسانیت کی فلاح اور بقا کے لیے دینِ حق کی جانب رجوع کرنے کی تلقین کی، دینِ حق جس نے انسان کو آزادی کا شعور دیا اور غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات دلائی یہی وہ دینِ حق ہے جس کی تکمیل اللہ عزوجل نے نبی پاکﷺ کے ذریعے قرآن پاک کی صورت میں کی، جب کوئی نظام اپنی کاملیت کے ساتھ متعارف ہو جائے تو اُس کے بعد کسی اور نظام کی گنجائش نہیں رہتی یہی وجہ ہے کہ نبی پاکﷺ کے بعد نبوت اور وحی کا سلسلہ روک دیا گیا کیونکہ اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں انسانیت کی فلاح اور بقا کے لیے ایسی بنیادات دی ہیں جن پہ ہر دور اور زمانے میں ایک کامل معاشرہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ صد حیف مادہ پرستی میں مبتلا آزادئِ اظہارِ رائے کے داعی ذہنی خلفشاری میں مبتلا ہیں اور اپنے ہر اُس قدم کو آزادی سے تعبیر کرتے ہیں جس کا مقصد دوسروں کے جذبات مجروح کرنا اور ذہنی تکلیف دینا ہو۔ پرنٹنگ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا اِن لوگوں کی وجہ سے انسانیت نے ہمیشہ نقصان اٹھایا ہے، اِن لوگوں کا شمار بھی اُسی گروہ میں جن نے اپنے پیغمبروں پہ نازل ہونے والے صحائف اور کتب میں ردو بدل کیا، یہ شیطان صفت گروہ صدیوں پہلے بھی متحرک تھا اور آج بھی متحرک ہے۔ انبیاء کو اپنی کتابوں میں نعوذ باللہ رومانوی ہیرو بنا کر پیش کرنا اور اُن کی فلمیں بنانا انسانیت کے منصب کی تذلیل نہیں تو کیا ہے؟ خاکے بنانا اور تمسخر اُڑانا ذہنی پستی کی علامت ہے نہ کہ آزادئِ اظہارِ رائے کی۔ صد حیف ایسے افعال کے ذمہ داران کو حکمرانوں کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔
تحریر:کاشف بٹ
mkbutt2000@gmail.com
اُمتِ مسلمہ کے لیے تمام انبیاء واجبِ الاحترام ہیں اور ختمِ نبوت ایمان کا بنیادی ستون ہے اسی لیے ایسے افعال پہ امت شدید کرب سے گزر رہی ہے، مسلمان اپنی ذات پہ ہونے والے حملے تو برداشت کر سکتا ہے لیکن اللہ عزوجل کے برگزیدہ پیغمبروں اور اُن کے صحابہ کی شان میں گستاخی کبھی برداشت نہیں کرے گا اور یہی وہ نکتہ ہے جس کی بناء پہ شیطان اور اُس کے انتشار پسند چیلے مسلمانوں کو ذہنی کرب دے رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کو سب سے زیادہ تکلیف پہنچانے والے افعال کیا ہے۔
آج امتِ مسلمہ سراپۂِ احتجاج ہے، قریہ قریہ احتجاجی جلوس نکل رہے ہیں بائیکات بائیکات کے نعرے لگ رہے ہیں گھروں میں پڑی مغربی مصنوعات کو تلف کیا جا رہا ہے مگر کیا حاصل۔۔۔؟ اُمتِ مسلمہ آج نڈر قیادت سے محروم ہے، اتحادِ مسلمین کا وجود پاش پاش ہو چکا ہے، وہ قوت کھو چکی ہے جس کے تحت دشمن کی آنکھ میں آنکھ ڈال کے دیکھا جا سکے کیونکہ ہم دوست اور دشمن کی تمیز سے ہی محروم ہیں، دین مذہب کی شکل اختیار کر چکا ہے اور مذہبی عالم عوام کو گمراہیوں کی جانب لے جا رہے ہیں ایسے علماء انتشار پسند عناصر کے بارے میں جو فتوے جاری کرتے ہیں اُن کی اہمیت بھی اتنی ہی رہ گئی ہے جو کسی دوسرے مسلک کے خلاف جاری کردہ فتوے کی ہے کیونکہ کہنے اور عمل کرنے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ اُمتِ مسلمہ کے افراد اِن علماء کے خطابات کی روشنی میں اسلام کو سمجھتے ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اسلام کی روشنی میں ان کے خطابات کو پرکھا جائے لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ اپنے پیشے کی بقا کے لیے اِن مذہبی علماء نے ایک طویل عرصہ کھیل رچایا ہے جو اب عوام کو حقیقت محسوس ہونے لگا ہے، بازار میں فتووں کی ضحیم کتابیں موجود ہیں جن میں ایسے فتووں کی کوئی کمی نہیں جو باہم متصادم تو ہے ہی لیکن اسلام سے بھی متصادم ہیں، اِن مذہبی علماء نے اسلام کو مسلک کے نام پر اتنے مذاہب میں تقسیم کر دیا ہے جس کی مثال پہلی امتوں میں بھی نہیں ملتی، اِن مذاہب کی بنیادات میں جھانکا جائے تو معلوم ہو گا کہ نفرتوں کا سفر کہاں سے شروع ہوا اور کیسے آگے بڑھا اور بڑھتا جا رہا ہے مگر ملتِ اسلامیہ کے افراد اِس جانب توجہ نہیں دیتے اُن کے لیے تو دینِ اسلام اُسی مذہب تک محدود ہو گیا ہے جس کی تعلیم اُن نے اُس شخص یا مدرسے سے حاصل کی ہے جس کی جانب والدین نے انہیں حروفِ تہجی کا قاعدہ دے کر بھیجا ہے کیونکہ والدین نے اپنے بچپن میں بھی یہی فعل سرانجام دیا تھا، موروثیت نے فکری قوتوں کے استعمال کو بہت پائمال کیا ہے لیکن۔۔۔
ایسے عالم میں بھلا ہم کیسے شیطان صفت انتشار پسند عناصر سے مقابلہ کر سکیں گے؟ کیسے انہیں اُن کے گھناؤنے افعال سے روک پائیں گے؟ جناب! اپنی تصیح ضروری ہے جب پانی سر سے گزرنے لگے پھر ہاتھ پاؤں مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا، ایک محفل میں پیر صاحب خطاب کر رہے تھے پہلے اُن نے وطنِ عزیز کے علماء و شیوخ میں اپنے مقام اور منصب کی تفصیلات بیان کیں اور پھر رات کو امریکہ میں دیئے گئے اپنے آن لائن انٹرویو کا ذکر کرنے لگے جس میں اُن نے مقابل سے ناموسِ رسالت پہ سیر حاصل گفتگو کی تھی اور اپنے جذبۂِ ایمانی سے آگاہ کیا تھا، ساری روداد بیان کرنے کے بعد اُن صاحب نے حاضرینِ محفل سے تحفظِ ناموسِ رسالت ریلی میں شرکت کی بھرپور اپیل کی جس کا حاضرین نے بھی جوش و جذبہ سے خیر مقدم کیا، میں قریب بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اِن پیر صاحب کے قول و فعل میں بھی کتنا تضاد ہے، یہ صاحب شاذ ہی وطنِ عزیز میں دستیاب ہوتے ہیں، بیرونِ ملک قیام پذیر مریدوں کو ان سے اتنا اُنس ہے کہ انہیں زیادہ تر اپنے پاس ہی رکھتے ہیں اور اُن کے جذبۂِ ایمانی کی حالت ایسی ہے کہ صحابہ کی شان میں گستاخی پر انہیں کئی بار ہزیمت بھی اٹھانا پڑی ہے مگر آج بھی اپنے مریدوں کے درمیان اونچے منبر پہ بیٹھے خطاب کرتے ہیں۔۔۔ یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہے گا اور پیر صاحب کی وفات کے بعد اُن کا مزار بنایا جائے گا اور اُن کے نام کے ساتھ رحمت اللہ علیہ لکھا جائے گا۔۔۔ افسوس یہ گستاخ ہماری آنکھوں کے سامنے ہوتے ہوئے بھی سامنے نہیں ہیں۔۔۔
ہمارے حکمرانوں کے بیانات بھی آن ریکارڈ ہیں کسی نے قرآن پاک کے چالیس پارے گنوائے اور کسی نے حج کے رکن کو میراتھن ریس کے ساتھ نتھی کیا لیکن آج بھی جذبۂِ ایمانی کے ساتھ زندہ سلامت ہیں، رقص کی محفلیں سجانے والے اور جام بھر بھر پینے والے بھی ایوان میں بیٹھے ہوئے ہیں کیا اُن کے افعال توہینِ رسالت کے زمرے میں نہیں آتے، قرآنی احکام کی نفی کرتے یہ افعال قابلِ گرفت نہیں تو کیا ہیں؟ اور جب حکمرانوں کی حالت ہی ناگفتہ بہ ہو تو اُن سے کیسی توقع۔۔۔؟؟
عدالت کی جانب سے جاری ہونے والے احکامات خوش آئند ہیں جن کے تحت توہینِ رسالت والی ویب سائٹس کے لنک کی روک تھام اور کچھ سرچ انجن کی مانیٹرنگ کی ہدایت کی گئی ہے مگر کیا اتنا ہی کافی ہے۔۔۔؟ معاشرے کی بہتری کے لیے ناگزیر ہے کہ اُن تمام ویب سائٹس پر بھی پابندی لگا دی جائے جو شرمناک اور فتنہ انگیز مواد کے ابلاغ میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی، معاشرے میں اخلاقی اقدار کے احیاء کے لیے لٹریچر، تصاویر اور ویڈیوز کے ذریعے بے حیائی پھیلانے والی ویب سائٹس کے لنکس پہ بندش ناگزیر ہے ورنہ نوجوان نسل کی اخلاق اور کردار کا تحفظ ممکن نہیں۔ مذہبی و سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والی ویب سائٹس کی مانیٹرنگ بھی ناگزیر ہے اِس سے معاشرے میں تفرقہ سازی اور فتنہ پھیلانے کی کوششوں میں کافی حد تک کمی ہو گی۔ افسوس ہم لوگ اپنے معاملات میں دینِ کامل دور ہوتے جا رہے ہیں اللہ عزوجل نے نبی پاک ﷺ کے ذریعے جو تعلیمات ہم تک پہنچائی ہیں ہم اُن سے قطع نظر مادیت پرستی میں الجھ چکے ہیں ہم صلوٰۃ تو ادا کرتے ہیں لیکن صلوٰۃ کی روح سے مستفید نہیں ہو پاتے اور ہوں بھی کیسے جبکہ ہم ایک صلوٰۃ میں اللہ عزوجل سے جو عہد کرتے ہیں مسجد سے نکلتے ہی اُس کی پاسداری بھول جاتے ہیں اور دوسری صلوٰۃ میں پھر وہی عہد دہراتے ہیں اور مسجد سے نکل کے پھر وہی اپنی منشا اور اپنی خواہشات۔۔۔ یہ سب کس زمرے میں آتا ہے۔۔۔؟ جناب! گناہ اور ثواب کے اعداد و شمار سے نکل کے سوچیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ سب بھی توہینِ رسالت کے زمرے میں آتا ہے اور اِس کے فاعل ہم خود ہیں۔۔۔
اِس سے زیادہ بے بسی کا مقام کیا ہو گا کہ آج شیطان صفت انتشار پسند عناصر اپنے مذموم مقاصد میں سرگرمِ عمل ہیں اور ہم بجز احتجاج کے کچھ بھی عملی قدم اٹھانے سے محروم ہیں۔۔۔ وجہ صاف ظاہر ہے ہمیں اپنے اندر جھانکنا ہو گا اپنے تزکیۂِ نفس پہ توجہ دینی ہو گی منافقت سے اجتناب برتنا ہو گا تب ہی ہم ایمان کی اصل روح سے آشنا ہوں گے اور ہمارے اندر وہ قوت ابھرے گی جو ہمیں ایسے شیطان صفت عناصر کے قبلے درست کرنے میں مدد فراہم کرے گی۔ اللہ عزوجل ہم سب کے حال پہ رحم فرمائے (آمین)۔ انتشار پسند طبقے نے آزادئِ اظہارِ رائے کے نام پہ جس طرح اسلام اور حضور ﷺ کی شان میں گستاخی کی جرأت کی ہے وہ کسی طور ماورائے گرفت نہیں، ہر انسان کو آزاد پیدا کیا گیا ہے اور اُسے اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی فکری قوتوں کو زیرِ استعمال لاتے ہوئے اپنے لیے بہتری کی راہ اختیار کرے، انہی فکری قوتوں کی رہنمائی کے لیے اللہ عزوجل نے اپنے پیغمبروں کو وحی کے ساتھ بھیجا جن نے انسانیت کی فلاح اور بقا کے لیے دینِ حق کی جانب رجوع کرنے کی تلقین کی، دینِ حق جس نے انسان کو آزادی کا شعور دیا اور غلامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نجات دلائی یہی وہ دینِ حق ہے جس کی تکمیل اللہ عزوجل نے نبی پاکﷺ کے ذریعے قرآن پاک کی صورت میں کی، جب کوئی نظام اپنی کاملیت کے ساتھ متعارف ہو جائے تو اُس کے بعد کسی اور نظام کی گنجائش نہیں رہتی یہی وجہ ہے کہ نبی پاکﷺ کے بعد نبوت اور وحی کا سلسلہ روک دیا گیا کیونکہ اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں انسانیت کی فلاح اور بقا کے لیے ایسی بنیادات دی ہیں جن پہ ہر دور اور زمانے میں ایک کامل معاشرہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ صد حیف مادہ پرستی میں مبتلا آزادئِ اظہارِ رائے کے داعی ذہنی خلفشاری میں مبتلا ہیں اور اپنے ہر اُس قدم کو آزادی سے تعبیر کرتے ہیں جس کا مقصد دوسروں کے جذبات مجروح کرنا اور ذہنی تکلیف دینا ہو۔ پرنٹنگ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا اِن لوگوں کی وجہ سے انسانیت نے ہمیشہ نقصان اٹھایا ہے، اِن لوگوں کا شمار بھی اُسی گروہ میں جن نے اپنے پیغمبروں پہ نازل ہونے والے صحائف اور کتب میں ردو بدل کیا، یہ شیطان صفت گروہ صدیوں پہلے بھی متحرک تھا اور آج بھی متحرک ہے۔ انبیاء کو اپنی کتابوں میں نعوذ باللہ رومانوی ہیرو بنا کر پیش کرنا اور اُن کی فلمیں بنانا انسانیت کے منصب کی تذلیل نہیں تو کیا ہے؟ خاکے بنانا اور تمسخر اُڑانا ذہنی پستی کی علامت ہے نہ کہ آزادئِ اظہارِ رائے کی۔ صد حیف ایسے افعال کے ذمہ داران کو حکمرانوں کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔
0 comments:
Post a Comment