وادی کونش ایک دلکش تفریحی مقام
تحریر: نجیم شاہ
پاکستان میں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ اس بے پناہ قدرتی حسن کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے تفریحی مقامات سوات، کالام، مالم جبہ، کاغان، ناران، شوگراں، ایوبیہ، ٹھنڈیانی، مری، ہنزہ ، کالاش اور شمالی علاقہ جات اپنی اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں لیکن حالیہ برسوں کے دوران جس جگہ نے سیاحوں کو اپنی جانب راغب کیا ہے وہ چھترپلین ہے۔ یہ سیاحتی اور تفریحی مقام وادی کونش میں واقع ہے۔وادی کونش جو کونش ویلی کے نا م سے بھی مشہور ہے ہزارہ ڈویژن کے ضلع مانسہرہ میں واقع ہے۔ سبزہ زاروں، جھیلوں اور چراگاہوں کی سرزمین مانسہرہ کی جغرافیائی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی سرحدیں کشمیر، شمالی علاقہ جات اور مالاکنڈ سے ملی ہوئی ہیں۔ دنیا کا آٹھواں عجوبہ شاہراہ قراقرم جو شاہراہ ریشم کے نام سے بھی مشہور ہے اسی ضلع سے گزرتی ہے۔ یہ بین الاقوامی شاہراہ چین کے صوبہ سنکیانک کے شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے پھر ہنزہ، نگر، گلگت، چلاس، داسو، بشام، بٹ گرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے۔ ضلع مانسہرہ جسے شمالی علاقہ جات کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے قدرتی حسن سے مالا مال کرتے وقت بڑی فیاضی سے کام لیا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اپنی آنکھوں کو قدرتی مناظر سے خیرہ کرنے کے لئے وادی کاغان، ناران، شوگراں اور جھیل سیف الملوک کا رُخ کرتے ہیں لیکن اب وادی کونش بھی اس ضلع کا سیاحتی مرکز بنتا جا رہا ہے۔
اسلام آباد سے جی ٹی روڈ ٹیکسلا اور پھر حسن ابدال سے شاہراہ قراقرم کے ذریعے ہری پور، حویلیاں، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور شنکیاری سے ہوتے ہوئے راستے میں بل کھاتی ندیاں، سرسبز وادیاں اور چیڑ کے درخت ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جو وادی کونش کہلاتی ہے۔ وادی کونش دراصل اسلام آباد کے شمال میں واقع ہے ۔ قراقرم ہائی وے کے ذریعے اس وادی میں داخل ہوتے ہی آپ ایک خوبصورت شہر بٹل پہنچ جائیں گے۔ یہ سرسبز و شاداب شہر پہاڑوں کی گود میں واقع ہے اور اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ وادی کونش بٹل اسلام آباد سے تقریباً ایک سو پچاس جبکہ مانسہرہ سے صرف پچاس کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔بٹل سے بذریعہ سڑک صرف پانچ منٹ کی مسافت پر وادی کونش کا ایک حسین اور دلکش مقام چھترپلین آتا ہے اور اس سے آگے ضلع بٹ گرام کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ وادی کونش بٹل اور چھترپلین کے مشرق میں برف سے ڈھکی ایک بلند پہاڑی چوٹی موسیٰ کا مصلیٰ اور وادی کاغان، مغرب میں سوات، شمال میں ضلع شانگلہ کا ایک خوبصورت اور دلکش علاقہ بشام جبکہ جنوب میں شنکیاری کے خوبصورت مقامات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جہاں ایک طرف موسیٰ کا مصلیٰ اپنے جلوے دکھا کر باہمت سیاحوں کو اپنی چٹانوں پر آنے کی دعوت دیتا ہے وہیں سوات اور کاغان کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے وادی کونش کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
کسی بھی مقام کا جغرافیائی محل وقوع بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے وادی کونش کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے گردونواح میں ہر علاقہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ جہاں تک نظر دوڑائی جائے قدرتی مناظر کا ایک دلکش سلسلہ جا بجا پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ بالخصوص موسم بہار میں ان قدرتی مناظر کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔سیاحوں کی طرف سے دلچسپی کو دیکھتے ہوئے چھترپلین میں قیام و طعام کے لئے نہ صرف ہوٹل بن رہے ہیں بلکہ بہت سے لوگ اپنے بزنس کو بڑھاوا دینے کیلئے بھی اس علاقے میں دلچسپی لے رہے ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ سیاحت کا پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے کے باوجود حکومت کی طرف سے اس علاقے کے تعمیراتی کاموں میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آتی۔ حکومت چاہے تو وادی کونش کو سیاحوں کیلئے ایک پرفضاء مقام کے طور پر متعارف کرا کر ملکی معیشت کو بڑھاوا دے سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں چھترپلین کے مقام پر پانی کا ایک ایسا چشمہ دریافت ہوا ہے جو شوگر اور دیگر موذی امراض سے نجات کیلئے انتہائی مفید پایا گیا۔وادی کونش میں چھترپلین ، بٹل اور مضافاتی علاقے سیاحوں کے لئے نہایت کشش اور جاذبیت کے حامل ہیں۔یہ علاقہ شہد، مرغی اور مچھلی فارمنگ کیلئے بھی انتہائی موزوں قرار پا چکا ہے۔ اس کے علاوہ ریسٹ ہاؤسز اور دلکش مقامات تعمیر کرکے نہ صرف سیاحوں کو اس جانب متوجہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سے کاروبار کو بھی بڑھاوا مل سکتا ہے۔
پہاڑوں کے درمیان گھری اس حسین و جمیل وادی کے سے ایک خوبصورت دریا گزرتا ہے جسے تاحال کوئی سرکاری نام نہیں دیا گیا لیکن اس علاقے کے نام کی مناسبت سے دریائے کونش کہلاتا ہے۔ مقامی لوگ اسے کٹھا اور بٹ کَس کے ناموں سے بھی پکارتے ہیں۔ یہ دریا اس وادی کی خوبصورتی کو مزید دلکش بنا دیتا ہے اور وہاں سے گزرنے والے ہر راہ گیر کو اپنے خوبصورتی کے سحر میں جکڑ دیتا ہے۔و ادی کونش جغرافیائی لحاظ سے بہت خوبصورت علاقہ ہے۔موسم گرما میں بھی یہاں رات کا آخری پہر سرد ہوتا ہے حتیٰ کہ لحاف یا کمبل میں بھی ٹھنڈ لگتی ہے۔ پہاڑ، جنگلات اور خوبصورت بل کھاتے ندی نالے اس وادی کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں مگر ایک طویل عرصے سے حکمرانوں نے اس وادی کو پسماندگی میں دھکیل رکھا ہے۔ سنہ دو ہزار پانچ کے زلزلہ کے بعد اس علاقہ میں جو تھوڑی بہت ترقی ممکن ہوئی ہے وہ این جی اوز اور دیگر فلاحی تنظیموں کی مرہون منت ہے۔حکومت کی جانب سے نت نئے اعلانات تو ہوتے رہتے ہیں مگر اس کے اثرات ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ہمیں ایسے فیصلے کرنے ہوں گے جس کے دوررس نتائج برآمد ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ اپنے بہتر اقدامات سے وادی کونش اور اس کے مضافات کو دنیا بھر کے سیاحوں میں متعارف کرانے کے لئے کلیدی کردار ادا کرے کیونکہ اس سے نہ صرف سیاحت کی دنیا میں اس علاقے کی اہمیت بڑھے گی بلکہ اس سے ملکی معیشت بھی ترقی کرے گی اور مقامی لوگوں کو روزگار کے بہتر مواقعے بھی میسر آئیں گے۔
تحریر: نجیم شاہ
پاکستان میں فطرت اپنی تمام تر رعنائیوں اور خوبصورتیوں کے ساتھ جلوہ افروز ہے۔ اس بے پناہ قدرتی حسن کی وجہ سے پاکستان دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے جنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کے تفریحی مقامات سوات، کالام، مالم جبہ، کاغان، ناران، شوگراں، ایوبیہ، ٹھنڈیانی، مری، ہنزہ ، کالاش اور شمالی علاقہ جات اپنی اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے دنیا بھر میں مشہور ہیں لیکن حالیہ برسوں کے دوران جس جگہ نے سیاحوں کو اپنی جانب راغب کیا ہے وہ چھترپلین ہے۔ یہ سیاحتی اور تفریحی مقام وادی کونش میں واقع ہے۔وادی کونش جو کونش ویلی کے نا م سے بھی مشہور ہے ہزارہ ڈویژن کے ضلع مانسہرہ میں واقع ہے۔ سبزہ زاروں، جھیلوں اور چراگاہوں کی سرزمین مانسہرہ کی جغرافیائی خصوصیت یہ ہے کہ اس کی سرحدیں کشمیر، شمالی علاقہ جات اور مالاکنڈ سے ملی ہوئی ہیں۔ دنیا کا آٹھواں عجوبہ شاہراہ قراقرم جو شاہراہ ریشم کے نام سے بھی مشہور ہے اسی ضلع سے گزرتی ہے۔ یہ بین الاقوامی شاہراہ چین کے صوبہ سنکیانک کے شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے پھر ہنزہ، نگر، گلگت، چلاس، داسو، بشام، بٹ گرام، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور سے ہوتی ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے۔ ضلع مانسہرہ جسے شمالی علاقہ جات کا دروازہ بھی کہا جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے اسے قدرتی حسن سے مالا مال کرتے وقت بڑی فیاضی سے کام لیا ہے۔ دنیا بھر سے سیاح اپنی آنکھوں کو قدرتی مناظر سے خیرہ کرنے کے لئے وادی کاغان، ناران، شوگراں اور جھیل سیف الملوک کا رُخ کرتے ہیں لیکن اب وادی کونش بھی اس ضلع کا سیاحتی مرکز بنتا جا رہا ہے۔
اسلام آباد سے جی ٹی روڈ ٹیکسلا اور پھر حسن ابدال سے شاہراہ قراقرم کے ذریعے ہری پور، حویلیاں، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور شنکیاری سے ہوتے ہوئے راستے میں بل کھاتی ندیاں، سرسبز وادیاں اور چیڑ کے درخت ہمیں ایک ایسی دنیا میں لے جاتے ہیں جو وادی کونش کہلاتی ہے۔ وادی کونش دراصل اسلام آباد کے شمال میں واقع ہے ۔ قراقرم ہائی وے کے ذریعے اس وادی میں داخل ہوتے ہی آپ ایک خوبصورت شہر بٹل پہنچ جائیں گے۔ یہ سرسبز و شاداب شہر پہاڑوں کی گود میں واقع ہے اور اٹھارہ سو ستاون کی جنگ آزادی میں ایک تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔ وادی کونش بٹل اسلام آباد سے تقریباً ایک سو پچاس جبکہ مانسہرہ سے صرف پچاس کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔بٹل سے بذریعہ سڑک صرف پانچ منٹ کی مسافت پر وادی کونش کا ایک حسین اور دلکش مقام چھترپلین آتا ہے اور اس سے آگے ضلع بٹ گرام کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ وادی کونش بٹل اور چھترپلین کے مشرق میں برف سے ڈھکی ایک بلند پہاڑی چوٹی موسیٰ کا مصلیٰ اور وادی کاغان، مغرب میں سوات، شمال میں ضلع شانگلہ کا ایک خوبصورت اور دلکش علاقہ بشام جبکہ جنوب میں شنکیاری کے خوبصورت مقامات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جہاں ایک طرف موسیٰ کا مصلیٰ اپنے جلوے دکھا کر باہمت سیاحوں کو اپنی چٹانوں پر آنے کی دعوت دیتا ہے وہیں سوات اور کاغان کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے وادی کونش کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔
کسی بھی مقام کا جغرافیائی محل وقوع بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے وادی کونش کی خوش قسمتی ہے کہ اس کے گردونواح میں ہر علاقہ قدرتی حسن سے مالا مال ہے۔ جہاں تک نظر دوڑائی جائے قدرتی مناظر کا ایک دلکش سلسلہ جا بجا پھیلا دکھائی دیتا ہے۔ بالخصوص موسم بہار میں ان قدرتی مناظر کی خوبصورتی کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔سیاحوں کی طرف سے دلچسپی کو دیکھتے ہوئے چھترپلین میں قیام و طعام کے لئے نہ صرف ہوٹل بن رہے ہیں بلکہ بہت سے لوگ اپنے بزنس کو بڑھاوا دینے کیلئے بھی اس علاقے میں دلچسپی لے رہے ہیں لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ سیاحت کا پاکستانی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے کے باوجود حکومت کی طرف سے اس علاقے کے تعمیراتی کاموں میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آتی۔ حکومت چاہے تو وادی کونش کو سیاحوں کیلئے ایک پرفضاء مقام کے طور پر متعارف کرا کر ملکی معیشت کو بڑھاوا دے سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں چھترپلین کے مقام پر پانی کا ایک ایسا چشمہ دریافت ہوا ہے جو شوگر اور دیگر موذی امراض سے نجات کیلئے انتہائی مفید پایا گیا۔وادی کونش میں چھترپلین ، بٹل اور مضافاتی علاقے سیاحوں کے لئے نہایت کشش اور جاذبیت کے حامل ہیں۔یہ علاقہ شہد، مرغی اور مچھلی فارمنگ کیلئے بھی انتہائی موزوں قرار پا چکا ہے۔ اس کے علاوہ ریسٹ ہاؤسز اور دلکش مقامات تعمیر کرکے نہ صرف سیاحوں کو اس جانب متوجہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سے کاروبار کو بھی بڑھاوا مل سکتا ہے۔
پہاڑوں کے درمیان گھری اس حسین و جمیل وادی کے سے ایک خوبصورت دریا گزرتا ہے جسے تاحال کوئی سرکاری نام نہیں دیا گیا لیکن اس علاقے کے نام کی مناسبت سے دریائے کونش کہلاتا ہے۔ مقامی لوگ اسے کٹھا اور بٹ کَس کے ناموں سے بھی پکارتے ہیں۔ یہ دریا اس وادی کی خوبصورتی کو مزید دلکش بنا دیتا ہے اور وہاں سے گزرنے والے ہر راہ گیر کو اپنے خوبصورتی کے سحر میں جکڑ دیتا ہے۔و ادی کونش جغرافیائی لحاظ سے بہت خوبصورت علاقہ ہے۔موسم گرما میں بھی یہاں رات کا آخری پہر سرد ہوتا ہے حتیٰ کہ لحاف یا کمبل میں بھی ٹھنڈ لگتی ہے۔ پہاڑ، جنگلات اور خوبصورت بل کھاتے ندی نالے اس وادی کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں مگر ایک طویل عرصے سے حکمرانوں نے اس وادی کو پسماندگی میں دھکیل رکھا ہے۔ سنہ دو ہزار پانچ کے زلزلہ کے بعد اس علاقہ میں جو تھوڑی بہت ترقی ممکن ہوئی ہے وہ این جی اوز اور دیگر فلاحی تنظیموں کی مرہون منت ہے۔حکومت کی جانب سے نت نئے اعلانات تو ہوتے رہتے ہیں مگر اس کے اثرات ناممکن دکھائی دیتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے ہمیں ایسے فیصلے کرنے ہوں گے جس کے دوررس نتائج برآمد ہوں۔حکومت کو چاہئے کہ اپنے بہتر اقدامات سے وادی کونش اور اس کے مضافات کو دنیا بھر کے سیاحوں میں متعارف کرانے کے لئے کلیدی کردار ادا کرے کیونکہ اس سے نہ صرف سیاحت کی دنیا میں اس علاقے کی اہمیت بڑھے گی بلکہ اس سے ملکی معیشت بھی ترقی کرے گی اور مقامی لوگوں کو روزگار کے بہتر مواقعے بھی میسر آئیں گے۔
0 comments:
Post a Comment